بانجھ پن سے بچاؤ اور اولادکے حصول کے لیے پندرہ ضروری باتیں،جانیں وہ کیا ہیں

ہمیشہ میرا دل کڑھتا ہے کہ بچہ پیدا کرے عورت، زچگی کا درد سہے عورت!بچے پیدا کرنے سے بچنا ہے تو فیملی پلاننگ کے لیے گنی پگ بنے عورت!حمل ٹھہر گیا ، ضائع کروانے کے لیے بھی تکلیف اٹھائے عورت !ابارشن کروا کر خدا کی بھی مجرم، قانون کی بھیمجرم اور ذہنی عذاب سہے عورت!بچہ نہیں ہو رہا تو قصور وار کون؟

پھر وہی عورت!ہند و پاک معاشرے میں بانجھ کا لقب عورت کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے جوقطعی غلط ہے۔ اگر مرد بانجھ ہو تب بھی معاشرے کو یہی بتایا جائے گا کہ عورت بانجھ ہے۔۔ ۔جاری ہے اور مرد اس کی محبت میں دوسری شادی نہیں کر رہا۔ اس کیس میں بھی عظمت کا تاج مرد کے سر پر سجا دیا جاتا ہے۔ اگر بانجھ مرد مزید شادی بھی کرلے تب بھی تشخیص اور علاج کے نام پر عموماً قربانی کا جانور عورت ہی کو بنایا جاتا ہے۔ ایک مزیدار لطیفہ ’دبئی انفرٹیلیٹی سنڈروم‘ بھی پڑھ لیجئے۔ شوہر شادی کے دس پندرہ روز بعد ملازمت کے لیے بیرون ملک چلا جاتا ہے۔ بہو سسرال میں اجنبی رشتوں میں دن گزار رہی ہوتی ہے۔ شوہر کو کبھی ویزہ نہیں ملتا تو کبھی ملک کا چکر لگانے کے لیے رقم کا انتظام نہیں اور کبھی نوکری سے رخصت نہیں۔ اس دوران شوہر مرد ہونے کی وجہ سے کم از کم ایک امتحان سے بچا رہتا ہے

یعنی ’’اتنے سال گزر گئے بچہ نہیں ہوا؟‘‘ کا جملہ سننے سے۔ بہو،سسرال اور معاشرہ شادی کے سال گنتے ہیں جبکہ شادی وہی شروع کے دس پندرہ دن رہی جو دعوتوں میں گزر گئے۔ حمل ٹھہرگیا تو عورت بخشی گئی، نہیں ٹھہرا تو ایک ایسے کولہو میں پلوا دی جائے گی جس سے اس کی امنگوں کا تیل نکلے تو نکلے، ایسے میں بچہ کہاں سے آئے!٭جب بھی ایسی خاتون اپنی ساس کے ساتھ حمل کے لیے دوا لینے آتی ہے تو سب سے پہلے میں ساس کو باکردار، صابرہ بہو ملنے کی مبارک دیتی ہوں۔ پھر شوہر اور بیوی کے ساتھ رہنے کا وقت گنتی ہوں جو عموماً ایک سال کے وقفے سے پندرہ دن یا دو سال کے وقفے کے بعد دو یا تین ماہ کا ہوتا ہے۔ شادی کا عرصہ برسوں پر محیط ہو تب بھی حمل ٹھہرنے کا ممکنہ وقفہ ان گنے چنے دنوں پر محیط ہوتا ہے جو معاشرے اور سماج سے چرا کر میاں بیوی ساتھ گزار لیتے ہیں۔۔

۔۔جاری ہے حمل کب ٹھہرتاہے؟ ٭عورت کے تولیدی نظام کا سیٹ اپ ایسا ہے کہ ایک تاریخ سے دوسری تاریخ تک کے درمیانی28 سے30 روز میں سے کسی ایک دن انڈہ خارج ہوتا ہے۔ یہ دن عموماً اگلی ممکنہ تاریخ سے ٹھیک چودہ دن پہلے ہوتا ہے۔ یہ انڈہ بارہ سے چوبیس گھنٹے کے لیے نظام تولید میں زندہ رہتا ہے جس کے بعدگر جاتا/ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے ان چوبیس گھنٹے میں زوجین کے مابین دوری قائم رہے تو باقی تمام ماہ میں حمل ہونے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر ماہ میں ایک خاص دن کے چوبیس گھنٹے یعنی ’صرف ایک مکمل دن‘ جو حمل کے لیے موزوں ہے اسے ذہن میں رکھیں تو عورت کے حساب سے ایک سال میں صرف بارہ دن حمل کے لیے موزوں ہوتے ہیں۔٭مرد کے تولیدی جراثیم زنانہ نظام تولید میں چند منٹ سے لے کر پانچ دن تک زندہ رہ سکتے ہیں،

یعنی رحم میں جرثومے کی زیادہ سے زیادہ عمر پانچ روز ہے۔ مختلف تحقیقات سے ثابت ہوا کہ زیادہ تر حمل انڈے کے اخراج سے ایک سے دو روز پہلے کئے گئے ملاپ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں شامل چند حمل ایسے بھی تھے جو انڈے کے اخراج سے پانچ روز پہلے کے ملاپ کے نتیجے میں وقع پذیر ہوئے۔ جرثومے کی پانچ روزہ زندگی میں ان جراثیم نے اندام نہانی، رحم کی لمبی گردن، رحم اور فیلوپئین ٹیوبز سے انڈے دانی اور انڈے سے ملاپ کے بعد ٹیوبز کے رستے واپس رحم تک کا سفر بھی طے کرنا ہوتا ہے۔ ٭اسی طرح خاتون کے انڈے خارج ہونے کا دن ہمیشہ سوفیصد درستگی سے بتانا ممکن نہیں ہوتا، اس لئے اسے بھی احتیاطاً ممکنہ دن سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد تک سمجھ لیجیے یعنی ان مخصوص 24 گھنٹوں کو مزید 48 گھنٹے کے حفاظتی حصار میں لے آئیے تاکہ حمل کا چانس مس نہ ہو

۔ سائنس اس وقفے کو زرخیزی کی کھڑکی یا ’فرٹیلیٹی ونڈو‘ کہتی ہے اور اس کا قطعی وقت بیضے کے اخراج سے پہلے کے 12 سے 36 گھنٹے مانتی ہے۔ اب اس م صوص وقفے میں حمل کا خواہشمند جوڑا کوئی پکنک یا دعوت قبول نہ کرے یعنی گھر پر رہے اور حمل کی خواہش نہ رکھنے والے زوجین ان مخصوص دنوں میں خاص پرہیز رکھیں۔ مردانہ جراثیم کی زنانہ نظام تولید میں 5 روز کی ممکنہ زندگی کے پیش نظر حمل کے لیے مفید تین روز سے بھی 5 دن کا فاصلہ رکھیں۔ اس طرح کے بچاؤ سے زوجین میں سے ہر دو کا کسی بھی تکلیف دہ اور مضر صحت مانع حمل ادویات اور سرجریز سے بچاؤ ممکن ہے۔۔۔۔جاری ہ٭میں اپنی مریضہ کو ہمیشہ علاج کے آغاز میں ایک تین لفظی موٹو لکھ کر دیتی ہوں’ صبر، حوصلہ، تعاون‘۔ ہر ماہ جب امید بندھ کر ٹوٹ جائے تو صبر کیجیے، حوصلے سے کام لیتے ہوئے علاج جاری رکھیے

اور ڈاکٹر سے دوران علاج مکمل تعاون کیجیے۔ وہ ساس جو پوتے کھلانے کی خواہشمند ہے وہ دل بڑا کرے، یٹا آپ ہی کا ہے، بیوی پا کر ان شاء اللہ بدلے گا نہیں۔ پوتا چاہیے تو بہو کو شوہر کے پاس بھجوانے کا انتظام کریں ،غیرضروری ٹیسٹوں اور علاج سے اس نئے نویلے جوڑے کو بچائیں اور دعائیں سمیٹیں۔ اں! اگر ایک نیا شادی شدہ جوڑا ایک سال کا عرصہ بنا کسی دوری کے، ایک ساتھ گزارتا ہے لیکن حمل قرار نہیں پاتا، ایسی صورت میں اس جوڑے کے فریقین کو گائناکالوجسٹ سے مشورہ کرنا چاہیے اور ابتدائی ضروری ٹیسٹ کروا لینے چاہیں۔ اگر دونوں کے ٹیسٹس درست آئیں تو کسی علاج اور ٹینشن کے بنا مزید ایک سال کا ہنی مون پریڈ مزیدگزاریں۔ س دوران اگر حمل نہیں ٹھہرتا تو اب وقت ہے کہ ’اسپیشلائزڈ‘ ٹیسٹس کرائے جائیں اور باقاعدہ تشخیص کے بعد متعلقہ کمی/کمزوری/بیماری کا علاج کیا جائے۔

یاد رہے کہ میں یہ تمام ٹائم پریڈ ایک نوجوان جوڑے کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتا رہی ہوں۔ گر فریقین میں سے ایک کی یا دونوں کی شادی لیٹ عمر میں ہوئی ہے یا دونوں میں سے کسی ایک یا دونوں کا اس شادی سے پہلے پچھلی شادی میں حمل ہونے یا نہ ہونے کا تجربہ موجود ہے یا آپ کے خاندان خصوصاً بہن بھائیوں میں بانجھ پن موجود ہے تو ایسی صورت میں جوڑے کا وقت قیمتی ہے، اسے ضائع ہونے سے بچایے۔ جلد از جلد اسپیشلسٹ گائناکالوجسٹ سے رابطہ کیجیے۔ ٭یاد رکھیے! بانجھ پن کے علاج کے آغاز میں ڈاکٹر زوجین کا ایک انٹرویو کرتا ہے جس میں جوڑے کی ازدواجی روٹین اور طریق کار کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر طریقہ علاج طے کیا جاتا ہے۔ بہت سے جوڑوں میں بانجھ پن کی کوئی وجہ تشخیص نہیں کی جا کتی۔ ایسے جوڑے کے مسئلے کو غیر واضح بانجھ پن کہا جاتا ہے۔ بانجھ پن کا علاج مہنگا،

طویل اور بسا اوقات تکلیف دہ ہوتا ہے اور آخر میں اس علاج کی کامیابی کی کوئی گارنٹی بھی نہیں دی جا سکتی۔۔۔۔جاری ہے مرد کے ٹیسٹ ٭مرد کی زرخیزی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے خصیے مناسب مقدار میں صحت مند تولیدی خلیے پیدا کر رہے ہوں اور یہ خلیے کارگر طور پر اندام نہانی میں داخل کیے جائیں جہاں سے یہ بیضے تک کا سفر اچھے طریقے سے مکمل کر سکیں۔ ٹیسٹ اس سارے عمل کے دوران درپیش کسی بھی رکاوٹ اور مشکل کی جانچ کے لیے کیے جاتے ہیں۔ عمومی طبی معائنے اور تولیدی اعضاء کی جانچ کے بعد مندرجہ ذیل ٹیسٹ کیے جاتے ہیں: 1 ۔ مادہ منویہ کی جانچ : ایک مرد سے 1 سے 2 مختلف اوقات میں حاصل شدہ نمونوں کی جانچ کی جاتی ہے۔ مونے کے حصول کا طریقہ متعلقہ ڈاکٹر یا لیب اسسٹنٹ سمجھاتا ہے۔ مخصوص حالات میں پیشاب میں منی کی موجودگی کی پڑتال بھی کی جا سکتی ہے۔

2 ۔ ہارمون ٹیسٹ: خون کے معائنے سے مختلف مردانہ ہارمونز مثلاً ٹیسٹوسٹیرون اور دیگر مثلاً تھائیرائڈ ، پرولیکٹن یا ایل ایچ وغیرہ کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ کسی کمی بیشی کو دور کیا جا سکے ۔ 3 ۔جینیاتی ٹیسٹ : یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہیں بانجھ پن کسی موروثی مرض کا شاخسانہ تو نہیں۔ 4 ۔خصیے کی بائیوپسی: چنیدہ کیسز میں خصیے کی کچھ حصے کا نمونہ بذریعہ سرجری حاصل کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف بانجھ پن کی تشخیص کی جاسکے بلکہ خصیے میں موجود زندہ تولیدی خلیے حاصل اور محفوظ /فریز کیے جا سکیں جنہیں بعد میں اسسٹڈ ری پروڈکشن مثلا ٹیسٹ ٹیوب میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 5۔ امیجنگ اسٹڈیز: کچھ خاص کیسوں میں دماغ کی ایم آر آئی، کھوپڑی کا ایکسرے (پرانا طریقہ) ، بون منرل ڈینسٹی سکروٹل (خصیہ دانی کا) الٹرا ساؤنڈ یا واس ڈیفرنس(خصیے کی رگوں) میں رکاوٹ جانچنے کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

6 ۔ مزید خصوصی ٹیسٹ: انتہائی خاص کیسز میں چند مخصوص ٹیسٹ بھی کرائے جا سکتے ہیں مثلاً تولیدی خلیے کی صحت اور کوالٹی چیک کرنے کے لیے یا ڈی این اے میں کوئی ایبنارمیلٹی کنفرم کرنے کے لیے۔۔۔۔جاری ہے خاتون کے ٹیسٹ عورت کی زرخیزی و بارآوری کا دارومدار اس حقیقت پر ہے کہ اس کی بیضہ دانیاں صحت مند بیضے پیدا کریں۔ اس کا تولیدی نظام اس انڈے کو بیضہ نالیوں سے گزرنے اور مردانہ خلیے سے ملنے کی سہولت مہیا کرے، بارآور انڈہ ٹیوب سے رحم تک جانے اور رحم کی اندرونی جھلی سے چپکنے کے لیے آزاد ہو، عورت کے ٹیسٹ اسی عمل میں موجود کسی بھی رکاوٹ یا مشکل کو جانچنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ 1.5 عمومی طبی معائنے اور گائناکالوجیکل معائنے کے بعد کیے جانے والے ٹیسٹ یہ ہیں: 1 ۔ انڈے کے اخراج کی جانچ: خون کے معائنے سے ہارمونز کی مقدار معلوم کی جاتی ہے تاکہ پتا چلایا جا سکے

کہ مناسب مقدار میں انڈے بن اور خارج ہو رہے یں یا نہیں۔ 2۔ ٹیوبز کا ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے رحم اور اس سے ملحقہ ٹیوبز کی شکل صورت اور ان میں موجود کسی رکاوٹ یا خرابی کا پتا چلانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ایک دوا/کنٹراسٹ (جو سیاہ ایکسرے پر سفید رنگ کی تصویر بناتی ہے) استعمال کی جاتی ہے۔ یہ دوا ایک نرم لچکدار نالی کے زریعے رحم میں داخل کی جاتی ہے، اس دوران ایکسرے یا فلوروسکوپی کی جاتی ہے

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.