عائشہ کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی

عائشہ اس کی شادی ہوئی وہ سسرال میں اپنے شوہر اور میں ہی ساس ساتھ رہتی تھی ۔ بہت کم وقت عائشہ کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ ان دونوں کی شخصیت بالکل مختلف تھی اور عائشہ اپنی ساس کی بہت ساری عادتوں سے پریشان تھی ۔ اس کی ساس ہر وقت عائشہ پر طنز کرتی رہتی تھیں جو اسے بہت

ناگوار گزرتا تھا ۔ آہستہ آہستہ دن اور پھر ہفتے بیت گئے لیکن عائشہ اور اس کی ساس کی تکرار ختم نہ ہوئی ۔ ان تمام نااتفاقیوں نے گھر کا ماحول بہت خراب کر دیا تھا جسکی وجہ سے عائشہ کا شوہر بہت پریشان رہتا تھا ۔ آخر کار عائشہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ساس کا برا رویہ اور برداشت نہیں کرے گی اور وہ اب ضرور کچھ نہ کچھ کرے

گی ۔ عائشہ اپنے پاپا کے ایک بہت اچھے دوست فواد انکل کے پاس گئی جو جڑی بوٹیاں بیچتے تھے ۔ عائشہ نے انھیں ساری کہانی بتائی اور ان کہا کہ وہ اس کو تھوڑا سے سا زہر دے دیں تاکہ ہمیشہ کے لئے یہ مسئلہ ختم ہو جاۓ ۔ فواد انکل نے تھوڑی دیر کیلئے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ عائشہ میں اس مسئلے کو حل کرنے میں تمہاری مدد کرونگا ۔

لیکن تمہیں ویسا ہی کرنا ہو گا جیسا میں تمہیں کہوں گا ۔ عائشہ راضی ہوگئی ۔ فواد انکل ایک کمرے میں گئے اور تھوڑی دیر بعد اپنے ہاتھ میں کچھ جڑی بوٹیاں لے کر لوٹے ۔ انھوں نے عائشہ کو کہا کہ تم اپنی ساس کو مارنے کیلئے فوری زہر استعمال نہیں کر سکتیں کیونکہ اسطرح سب تم پر شک کریں گے ۔ اسلئے میں تمہیں یہ جڑی بوٹیاں دے رہا ہوں یہ

آہستہ آہستہ انکے جسم میں زہر پھیلائیں گی ۔ ہر روز تم کچھ اچھا پکانا اور پھر انھیں کھانا دیتے وقت اس میں یہ جڑی بوٹیاں ڈال دینا ۔ اور ہاں اگر تم چاہتی ہو کہ کوئی تم پر شک نہ کرے کہ تم نے اٹھیں مارا ہے تو تمہیں یہ خیال رکھنا ہو گا کہ تمہارا رویہ انکے ساتھ بہت دوستانہ ہو ۔ ان لڑائی مت کرنا ، ہر بات ماننا اور انکے ساتھ ایک ملکہ کی طرح

بر تاؤ کرنا ۔ عائشہ یہ سب سن کر بہت خوش ہوئی ، اس نے فواد انکل کا شکریہ ادا کیا اور جلدی گھر چلی گئی کیونکہ اب اسے اپنی ساس کو مارنے کا کام شروع کرنا تھا ۔ ہفتے گزر گئے اور پھر مہینے ، عائشہ روز کچھ اچھا لگا کر اپنی ساس کو خاص طور پر پیش کرتی تھی ۔ اسے یاد تھا کہ فواد انکل نے اس سے کیا کہا تھا کہ اسے اپنے غصے پر قابو رکھنا ہے ، اپنی

ساس کی خدمت کرنی ہے اور ان کے سے ساتھ اپنی ماں جیسا برتاؤ کرنا ہے ۔ چھ مہینے گزر گئے ، گھر کا نقشہ تقریبا بدل چکا تھا ۔ عائشہ نے کوشش کر کے اپنے غصے پر قابو پانا سیکھ لیا تھا ، اب اکثر وہ اپنی ساس کی باتوں پر ناراض اور قصہ نہ ہوتی ۔ چھ ماہ میں ایک بار بھی اسکا اپنی ساس سے جھگڑا نہیں ہوا تھا اور اب اسے وہ بہت اچھی لگنے لگی تھیں اور انکے ساتھ رہنا بھی آسان لگنے لگا تھا ۔ اس کی ساس کا رویہ بھی اسکے ساتھ بہت

بدل گیا تھا اور وہ بھی عائشہ کو اپنی بیٹیوں کی طرح پیار کرنے لگیں تھیں ۔ وہ اپنے سب ملنے والوں کے درمیان عائشہ کی تعریفیں کرتی تھیں ۔ عائشہ اور اسکی ساس دونوں اب ایک دوسرے کو ماں بیٹی کی طرح سمجھنے لگی تھیں ۔ عائشہ کا شوہر بھی یہ سب دیکھ کر بہت خوش تھا ۔ ایک دن عائشہ پھر فواد انکل کے پاس آئی ۔ ان سے کہنے لگی کہ آپ مجھے طریقہ بتائیں کہ کیسے میں اپنی ساس کو اس زہر سے بچاؤں جو میں نے انہیں دیا ہے ؟

وہ بہت بدل گئیں ہیں ، میں ان سے بہت پیار کرتی ہوں اور میں نہیں چاہتی کہ وہ اس زہر کی وجہ سے مر جائیں جو میں نے انھیں دیا ہے ۔ فواد انکل مسکراۓ اور کہنے لگے کہ تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ، میں نے تمہیں زہر نہیں دیا تھا بلکہ جو جڑی بوٹیاں میں نے تمہیں دی تھیں وہ وٹامن کی تھیں تاکہ ان کی صحت بہتر ہو جاۓ ۔ زہر صرف تمہارے دماغ میں اور تمہارے رویئے میں تھا لیکن وہ سب تم نے اپنے پیار سے ختم کر دیا ہے ۔ ۔ اگر ہم اپنے رویوں ، اخلاق اور سوچ کو درست لیں تو کئی پر یشانیوں ، بد گمانیوں اور اپنے آپ پر یا کسی دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے سے بچ سکتے ہیں ۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.